روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے منگل کے روز ماسکو میں IRNA کے نمائندے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ یورپی ممالک سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تقاضوں پر عمل درآمد میں ناکامی کے پیش نظر، اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ امریکی فریق کی طرح ایران پر سے اٹھائی گئی پابندیوں کو بحال کرسکیں۔
IRNA کے رپورٹر نے زاخارووا سے پوچھا کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اعلان کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ ایران کے خلاف پہلے سے اٹھائی گئی بین الاقوامی پابندیوں کو بحال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پھر، ان ممالک نے اس سمت میں دوسرے قدم اٹھائے۔ دریں اثنا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایران پر "زیادہ سے زیادہ دباؤ" مہم دوبارہ شروع کر دی ہے۔ ایران کے حوالے سے مغربی ممالک کی ان کوششوں پر روسی وزارت خارجہ کا کیا موقف ہے؟
اس سوال کے جواب میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ تہران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منسوخ شدہ پابندیوں کی قراردادوں کو بحال کرنے کا طریقہ کار، جسے مغرب میں "اسنیپ بیک" کہا جاتا ہے، یہ ایسی صورت حال کے لیے بنایا گیا تھا کہ اگر ایران JCPOA کی خلاف ورزی کرنے میں پیش قدم ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی فریق نے، جس کا کسی بھی معاہدے کی خلاف ورزی کا ارادہ نہیں تھا، اس میکانزم سے متعلق شقوں کو JCPOA اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 میں شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔
زاخارووا نے تاکید کی کہ ایران کے خلاف پابندیوں کی بحالی کا طریقہ کار ایسی صورت حال کے لیے وضع نہیں کیا گیا تھا کہ جب امریکہ جوہری معاہدے کی شقوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی شقوں کی خلاف ورزی کرنے والا پہلا ملک ہو، اور اس کے نفاذ میں ایک طویل مدتی بحران کا باعث بنے۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کی خلاف ورزیوں سے ایک بنیادی تبدیلی آئی جس نے "اسنیپ بیک" میکانزم کے استعمال کے طریقے کو متاثر کیا ہے، اور امریکہ کے غیر قانونی اقدامات سے متعلق صورتحال کو حل کیے بغیر اس طریقہ کار کا استعمال قابل قبول نہیں ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ امریکہ کے برے رویے کا اثر JCPOA مذاکرات میں حصہ لینے والے یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر یورپی یونین کے ممالک تک پھیل گیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کو بے اثر کرنے کے لیے کھلے عام اقدامات کیے اور JCPOA کے مناسب نفاذ کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا دعویٰ کرتے ہوئے، ایران کے خلاف غیر قانونی یکطرفہ پابندیوں کو ہٹانے کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے انکار کردیا۔
زاخارووا نے ارنا کے ساتھ اپنے انٹرویو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یورپی ممالک کی سلامتی کونسل کے تقاضوں پر عمل درآمد میں ناکامی کے پیش نظر، وہ امریکی فریق کی طرح ایران کے خلاف انتقام کا حق نہیں رکھتے۔
زاخارووا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ اور یورپی ممالک کی غلطی کی وجہ سے "ایٹمی معاہدے" کا خاتمہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طویل پرانی پابندیوں کی قراردادوں کے مطالبات کو ایران کی طرف منسوب کرنے کی وجہ نہیں بن سکتا، خاص طور پر ایسے حالات میں جب بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے تہران سے مطلوبہ قراداد کے تحت تمام جوابات جاصل کرلیے اور وہ ایجنسی کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔
آپ کا تبصرہ